کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 284
ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں ، پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر اس عورت نے توبہ کی اور پوری پختہ توبہ کی اور نکاح کر لیا، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کے لیے آتی تھی اور میں اس کی حاجت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیا کرتی تھی۔[1]
صحیح مسلم میں ہے کہ ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی پھر انکار کر جایا کرتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔[2]
ایک روایت میں ہے کہ یہ زیور ادھار لیتی تھی اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا۔[3]
پھل کی چوری کا حکم
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لٹکے ہوئے پھل کی چوری کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور کھا لے مگر ساتھ نہ لے جائے تو اس پر کوئی حد نہیں اور جو شخص دامن بھر کر نکلے تو اس سے دوگنی قیمت وصول کی جائے اور سزا دی جائے اور جو شخص پھلوں کو محفوظ مقام پر پہنچائے جانے کے بعد اس میں سے چوری کرے اور پھل کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر قیمت ڈھال سے کم ہو تو دوگنی قیمت لی جائے اور سزا دی جائے۔[4]
سزا سے مستثنیٰ لوگ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خائن، لٹیرے اور اچکے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ۔[5]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ کے دوران (میدان جنگ میں ) ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے۔[6]
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میدان جنگ میں سب لوگ مسلح ہوتے ہیں اگر سزا پانے والا طیش میں آ کر کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو یہ عین ممکن ہے اس طرح اپنے ہی لشکر میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے، لہٰذا صرف چوری کی ہی حد نہیں ۔ ہر قابل حد یا قابل تعزیر جرم کی سزا کو موخر کر دیا گیا۔ نیز سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے ایام میں چوری کی سزا، یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا، یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کر دی تھی اور ان کا استدلال اس
[1] صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابۃ، باب ذکر اسامۃ بن زید، رقم: ۳۷۳۲۔ صحیح مسلم: ۱۶۸۸۔
[2] صحیح مسلم، حوالہ ایضا۔
[3] سنن نسائی، کتاب قطع السارق، باب ما یکون حرزًا و ما لا یکون، رقم: ۴۸۹۳۔ اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۷۶-۹۷۸)۔
[4] سنن ابو داود، کتاب الحدود، باب ما لا قطع فیہ۔ و حسنہ زبیر علیزئی۔
[5] سنن ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی الخائن و المختلس۔ صحیح ہے۔
[6] سنن ابو داود، کتاب الحدود، باب السارق یسرق فی الغزو۔ صحیح ہے۔