کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 283
امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا۔[1] جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اللہ کی طرف جھک جائے اللہ اسے اس کا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے، لہٰذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال بھی اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک عورت نے کچھ زیور چرا لیے ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے پیش کیا آپ نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میری توبہ بھی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تم تو ایسی پاک صاف ہو گئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی ہو۔ اس پر آیت ﴿فَمَنْ تَابَ﴾ نازل ہوئی۔[2] مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہیں لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔[3] یہ عورت بنو مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑے گھرانے کی عورت تھی لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے کچھ کہیں سنیں ۔ یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ہیں وہ ان کے بارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں ۔ حضرت اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا: اسامہ تو اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے سفارش کر رہا ہے؟ اب تو سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے: مجھ سے بڑی خطا ہوئی میرے لیے آپ استغفار کیجیے۔ شام کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص (بڑا آدمی) چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کر دیتے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی چوری کریں تو میں
[1] مسند احمد: ۶/۸۰۔ اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ [2] اخرجہ الطبری: ۱۱۹۲۲۔ ابن لہیعہ ضعیف ہے۔ [3] مسند احمد: ۲/۱۷۷۔ اس کی سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔