کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 282
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾ فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾
’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو اُن دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ پھر جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کرے تو یقینا اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
چوری کے احکام
تفسیر:… جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے گو اس کی حد کے تقرر میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی۔[1]
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل گویا صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار پھر اس سے اوپر میں ۔[2]
پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ کاٹنے کا فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں ، اس لیے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا، پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم۔
سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا عثمان بن عفان اور سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز اور لیث بن سعد رحمہما اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ ایک روایت میں امام اسحاق بن راہویہ اور
[1] صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب قول اللہ: وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا، رقم: ۶۷۹۵، ۶۷۹۸۔ صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب حد السرقۃ و نصابہا، رقم: ۱۶۸۶۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب حد السرقۃ و نصابہا، رقم: ۱۶۸۴۔