کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 279
نعلین اور جرابوں پر مسح کرنا
مسند احمد میں اوس بن اوس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دیکھتے ہوئے وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔[1]
امام ابن جریر اسے بیان کرتے ہیں ، پھر فرمایا: یہ اس پر محمول ہے کہ آپ کا پہلے وضو تھا۔
یا یہ محمول ہے اس پر کہ نعلین جرابوں کے اوپر تھے۔
بھلا کوئی مسلمان کیسے یہ قبول کر سکتا ہے کہ اللہ کے فریضے میں اور پیغمبر کی سنت میں تعارض ہو؟ اللہ کچھ فرمائے اور پیغمبر کچھ اور ہی کریں ، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہے اور آیت کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔ جس کے کانوں تک یہ دلیلیں پہنچ جائیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی۔ چونکہ زبر کی قراء ت سے پیروں کا دھونا اور زیر کی قراء ت کا بھی اسی پر محمول ہونا فرضیت کا قطعی ثبوت ہے اس سے بعض سلف تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آیت سے جرابوں کا مسح ہی منسوخ ہے گو ایک روایت حضرت علی سے بھی ایسی ہی مروی ہے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں بلکہ خود آپ سے صحت کے ساتھ اس کے خلاف ثابت ہے اور جن کا بھی یہ قول ہے ان کا خیال صحیح نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
مسند احمد میں جریر بن عبداللہ بَجلی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد ہی میں مسلمان ہوا اور اپنے اسلام کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جرابوں پر مسح کرتے دیکھا۔[2]
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کرتے ہوئے اپنی جرابوں پر مسح کیا ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کرتے ہیں ؟ تو فرمایا ہاں یہی کرتے ہوئے میں نے اللہ کے رسول کو دیکھا ہے۔ راوی حدیث ابراہیم فرماتے ہیں : لوگوں کو یہ حدیث بہت اچھی لگتی تھی اس لیے کہ حضرت جریر کا اسلام لانا سورۂ مائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا تھا۔[3]
احکام کی بڑی بڑی کتب میں تواتر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔[4]
[1] مسند احمد: ۴/۸۔ صحیح ہے۔
[2] مسند احمد: ۴/۳۶۳۔ صحیح ہے۔
[3] صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ فی الخفاف، رقم: ۳۸۷۔ صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین: ۲۷۲۔
[4] دیکھیے: تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۳۶-۹۴۰۔