کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 278
حضرت صبرۃ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: وضو کامل اور اچھا کرو۔ انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی دو۔ ہاں روزے کی حالت میں ہو تو اور بات ہے۔[1]
مسند و مسلم وغیرہ میں ہے جو شخص وضو کا پانی لے کر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی چڑھاتا ہے، اس کے منہ اور نتھنوں سے پانی کے ساتھ ہی خطائیں جھڑ جاتی ہیں جبکہ وہ ناک جھاڑتا ہے، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو اس کے منہ کی خطائیں داڑھی اور داڑھی کے بالوں سے پانی کے گرنے کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے کہنیوں سمیت تو اس کے ہاتھوں کے گناہ اس کے پوروں کی طرف سے جھڑ جاتے ہیں پھر وہ مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی خطائیں اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں ۔ پھر جب وہ اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے مطابق دھوتا ہے تو انگلیوں سے پانی ٹپکنے کے ساتھ ہی اس کے پیروں کے گناہ بھی دور ہو جاتے ہیں ، پھر وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کے لائق جو حمد و ثنا ہے اسے بیان کر کے دو رکعت نماز جب ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ تولد ہوا ہو۔ یہ سن کر حضرت ابو امامہ نے حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا: خوب غور کیجیے کہ آپ کیا فرما رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے اسی طرح سنا ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کر لیتا ہے؟ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابو امامہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری ہڈیاں ضعیف ہو چکی ہیں ، میری موت قریب آ پہنچی ہے۔ مجھے کیا فائدہ جو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں میں نے تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سات بار بلکہ اس سے بھی زیادہ سنا ہے۔ (اس کی سند بالکل صحیح ہے۔)[2]
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں قدم جوتوں میں ہی بھگو لیے اس سے مراد جوتوں میں ہی ہلکا دھونا ہے اور چپل جوتا پیر میں ہوتے ہوئے پیر دھل سکتا ہے غرض یہ حدیث بھی دھونے کی دلیل ہے۔ البتہ اس سے ان وسوسے اور وہم میں پڑنے والے لوگوں کی تردید ہے جو حد سے گزر جاتے ہیں ۔
[1] سنن ابو داود، کتاب الصوم، باب الصائم یصب علیہ الماء من العطش، رقم: ۲۳۶۶۔ سنن النسائی: ۸۷۔ صحیح ہے۔ (المشکاۃ: ۴۰۵)۔
[2] مسند احمد: ۴/۱۱۲۔ صحیح ہے۔ صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین باب اسلام عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ، رقم: ۸۳۲۔