کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 277
یہ بالکل ظاہر ہے کہ پاؤں دھونے چاہئیں ۔ یہی سلف کا فرمان ہے اور یہیں سے جمہور نے وضو کی ترتیب کے وجوب پر استدلال کیا ہے … آیت کے الفاظ میں نماز پڑھنے والے کو منہ دھونے کا حکم لفظ ﴿فَاغْسِلُوْا﴾ سے ہوتا ہے تو کم از کم منہ کا اول اول دھونا تو لفظوں سے ثابت ہو گیا اس کے بعد کے اعضاء میں ترتیب اجماع سے ثابت ہے جس میں اختلاف نظر نہیں آتا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر کے باب صفا سے نکلے تو آپ آیت ﴿اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۵۸) کی تلاوت فرما رہے تھے اور فرمایا: میں اسی سے شروع کروں گا جسے اللہ نے پہلے بیان فرمایا، چنانچہ صفا سے شروع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا۔[1] اس کی اسناد بھی صحیح ہے اور اس میں امر ہے پس معلوم ہوا کہ جس کا ذکر پہلے ہوا اسے پہلے کرنا ہے اور اس کے بعد اسے جس کا ذکر بعد میں ہو کرنا واجب ہے پس ثابت ہو گیا کہ ایسے مواقع پر شرعا ترتیب مراد ہوتی ہے۔ و اللہ اعلم۔[2] وضو کے فضائل و مسائل پر مبنی احادیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تھے جب آپ آئے تو ہم جلدی جلدی وضو کر رہے تھے کیونکہ عصر کی نماز کا وقت کافی دیر سے ہو چکا تھا ہم نے جلدی جلدی اپنے پاؤں پر چھوا چھوئی کر دی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا: وضو کو کامل اور پورا کرو ایڑیوں کو خرابی ہے آگ کے لگنے سے۔[3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اس کا پیر کسی جگہ سے ناخن کے برابر دھلا نہیں خشک رہ گیا تو آپ نے فرمایا: لوٹ جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔[4] عثمان رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ جو مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے انگلیوں کے درمیان خلال بھی کیا۔[5]
[1] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ، رقم: ۱۲۱۸۔ سنن ابو داود، رقم: ۱۹۰۵۔ [2] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۳۰-۹۳۴۔ [3] صحیح بخاری، کتاب العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثا، رقم: ۹۶۔ صحیح مسلم: ۲۴۱۔ [4] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء، رقم: ۲۴۳۔ سنن ابو داود: ۱۷۳۔ [5] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، رقم: ۲۳۰۔ سنن ابو داود: ۱۰۷۔