کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 276
پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ سر کا مسح بھی تین بار ہو یا ایک ہی بار؟ امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور مذہب اول ہے اور امام احمد اور ان کے متبعین کا دوم۔ دلائل یہ ہیں حضرت ابن عفان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا انہیں دھو کر پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر تین مرتبہ منہ دھویا پھر تین تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے پہلے دایاں پھر بایاں ۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے پہلے داہنا پھر بایاں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا اور وضو کے بعد آپ نے فرمایا: جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔[1] سنن ابو داؤد میں اس روایت میں سر کے مسح کرنے کے ساتھ ہی یہ لفظ بھی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ کیا۔[2] حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔[3] اور جن لوگوں نے سر کے مسح کو تین بار کہا ہے انہوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جس میں ہے کہ حضور رضی اللہ عنہم نے تین تین بار اعضاء دھوئے۔[4] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا پھر اسی طرح روایت ہے اور اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کا ذکر نہیں اور اس میں ہے کہ پھر آپ نے تین مرتبہ سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ اپنے دونوں پیر دھوئے، پھر فرمایا: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا اور آپ نے فرمایا جو ایسا کرے اسے کافی ہے۔[5] لیکن حضرت عثمان سے جو حدیثیں صحاح میں مروی ہیں تو ان سے تو سر کا مسح ایک بار ہی ثابت ہوتا ہے۔ ﴿وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ نافع نے اَرْجُل کی نصب سے پڑھا ہے۔ حسن بصری اور اعمش کی بھی یہی قراء ت ہے۔ جبکہ ابن کثیر، ابو عمرو اور حمزہ نے جر کے ساتھ پڑھا ہے۔ نیز نصب والی قراء ت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اس کا عطف ’’وجہ‘‘ پر ہے۔ جمہور علماء نے بھی یہی مذہب اختیار کیا ہے۔[6]
[1] صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، رقم: ۱۵۹۔ صحیح مسلم: ۲۲۶۔ [2] سنن ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب صفۃ وضوء النبی: ۱۰۸ [3] سنن النسائی: ۹۲۔ احمد: ۱/۱۲۲۔ صحیح ہے۔ [4] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، رقم: ۲۳۰۔ [5] سنن ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب صفۃ وضوء النبی صلي الله عليه وسلم ، ۱۰۷۔ حسن صحیح ہے۔ [6] فتح القدیر: ۲/۲۴۔