کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 275
پاؤں کو دھویا حتی کہ پنڈلی کو دھونا شروع ہوئے پھر بائیں پاؤں کو دھویا حتی کہ پنڈلی کو دھونا شروع کر دیا۔ پھر فرماتے ہیں اس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور وہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عمدگی سے وضو کرنے کے باعث روز قیامت پنج کلیان آؤ گے، لہٰذا تم میں سے جو مقدرت پائے تو وہ اپنی سفیدی کو لمبا کر لے۔[1] ﴿امْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ﴾ ایک قول یہ ہے کہ یہ ’’الصاق‘‘ (ملا دینے) کے معنی میں ہے، یعنی اپنے ہاتھوں کو اپنے سروں سے ملا دو۔[2] حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم صحابی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا: آپ وضو کر کے ہمیں بتلائیے۔ آپ نے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو دفعہ دھوئے، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین ہی دفعہ اپنا منہ دھویا پھر کہنیوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دھوئے پھر دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا، سر کے ابتدائی حصے سے گدی تک لے گئے۔ پھر وہاں سے یہیں تک واپس لائے پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔[3] یہ حدیثیں اس بات پر دلیل ہیں کہ پورے سر کا مسح فرض ہے۔ یہی مذہب حضرت امام مالک اور احمد رحمہما اللہ کا ہے اور یہی مذہب ان تمام حضرات کا ہے جو آیت کو مجمل مانتے ہیں اور حدیث کو اس کی وضاحت جانتے ہیں ۔ حنفیوں کا خیال ہے کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے جو سر کا ابتدائی حصہ ہے اور ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ فرض صرف اتنا ہے جتنے پر مسح کا اطلاق ہو جائے اس کی کوئی حد نہیں ۔ سر کے چند بالوں پر بھی مسح ہو گیا تو فرضیت پوری ہو گئی ان دونوں جماعتوں کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب آپ قضائے حاجت کر چکے تو مجھ سے پانی طلب کیا میں لوٹا لے آیا، آپ نے اپنے دونوں پہنچے تک دھوئے پھر منہ دھویا پھر کلائیوں پر سے کپڑا ہٹایا اور پیشانی سے ملے ہوئے بالوں اور پگڑی پر مسح کیا اور دونوں جرابوں پر بھی۔[4] اس کا جواب امام احمد اور ان کے ساتھی یہ دیتے ہیں کہ سر کے ابتدائی حصے پر مسح کر کے باقی پگڑی پر پورا کر لیا اور اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں ہیں ۔ آپ عمامے پر اور جرابوں پر برابر مسح کیا کرتے تھے۔ پس یہی اولیٰ ہے اور اس میں ہرگز اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ سر کے بعض حصے پر یا صرف پیشانی کے بالوں پر ہی مسح کر لے اور اس کی تکمیل پگڑی پر نہ ہو۔ و اللہ اعلم۔
[1] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرۃ و التحجیل فی الوضوء۔ [2] فتح القدیر: ۲/۲۳۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب مسح الرأس کلہ، رقم: ۱۸۵۔ صحیح مسلم: ۲۳۵۔ [4] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الناصیۃ و العمامۃ، رقم: ۲۷۴۔ ابو داود: ۱۵۰۔