کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 274
کی اخیر تک ہے جبکہ چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک۔[1]
صحاح وغیرہ میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرنے بیٹھتے کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے۔ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں واجب ہیں یا مستحب؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب تو وجوب کا ہے۔[2]
مسند احمد و بخاری میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وضو کرنے بیٹھے تو منہ دھویا ایک چلو پانی کا لے کر کلی کی اور ناک کو صاف کیا پھر ایک چلو لے کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلو لے کر اپنے بائیں ہاتھ کو دھویا پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر پانی کا ایک چلو لے کر اپنے داہنے پاؤں پر ڈالا اور اسے دھویا پھر ایک چلو سے بایاں پاؤں دھویا، پھر فرمایا: میں نے اللہ کے پیغمبر کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔[3]
﴿اِلَی الْمَرَافِقِ﴾ سے ’’مَعَ الْمَرَافِقِ‘‘ مراد ہے۔ جیسے کہ فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَہُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًاo﴾ (النساء: ۲) یعنی یتیموں کے اموال کو اپنے اموال سمیت نہ کھا جایا کرو یہ بڑا ہی گناہ ہے۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک نہیں کہنیوں سمیت دھونا چاہیے۔ دارقطنی وغیرہ میں ہے کہ حضور رضی اللہ عنہم وضو کرتے ہوئے اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے تھے۔[4]
وضو کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ کہنیوں سے آگے اپنے شانے کو بھی وضو میں دھوئے کیونکہ بخاری و مسلم میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ میری امت وضو کے نشانوں کی وجہ سے قیامت کے دن چمکتے ہوئے اعضاء سے آئے گی، پس تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اپنی چمک کو دور تک لے جائے۔[5]
صحیح مسلم میں ہے: مومن کو وہاں تک زیور پہنائے جائیں گے جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا تھا۔[6]
نعیم بن عبداللہ المجمر سے مروی ہے، کہتے ہیں : میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا، چنانچہ آپ نے اپنا چہرہ دھویا اور خوب عمدگی سے وضو کیا پھر دایاں ہاتھ دھویا حَتّٰی اَشْرَعَ فِی الْعَضُدِ حتی کہ اوپری بازو کو دھونے لگے پھر بائیں ہاتھ کو دھویا حَتّٰی اَشْرَعَ فِی الْعَضُدِ پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دائیں
[1] فتح القدیر: ۲/۲۳۔
[2] ابن کثیر: ۱/۹۳۱۔
[3] صحیح البخاری، کتاب الوضو، باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ واحدۃ، رقم: ۱۴۰۔ مسند احمد: ۱/۲۶۸۔
[4] سنن دار قطنی: ۱/۸۳۔ بیہقی: ۱/۵۷۔
[5] صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب فضل الوضوء و الغر المحجلون…، رقم: ۱۳۶۔ صحیح مسلم: ۲۴۶۔
[6] صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوء: ۲۵۰۔ مسند احمد: ۲/۳۷۱۔