کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 273
وضو کے لیے نیت آیت کے ان الفاظ سے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو وضو کر لیا کرو۔ علماء کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ وضو میں نیت واجب ہے مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے کہ نماز کے لیے وضو کر لیا کرو جیسے عرب میں کہا جاتا ہے: جب تو امیر کو دیکھے تو کھڑا ہو جا۔ تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر کے لیے کھڑا ہو جا۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے: اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے صرف وہی ہے جو وہ نیت کرے۔[1] وضو سے پہلے بسم اللہ کہنا منہ دھونے سے پہلے وضو میں بسم اللہ کہنا مستحب ہے کیونکہ ایک پختہ اور بالکل صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کا وضو نہیں جو اپنے وضو پر بسم اللہ نہ کہے۔[2] حدیث کے ظاہری الفاظ بسم اللہ کہنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں ۔ و اللہ اعلم۔ (ابن نواب) [3] وضو کے فرائض نیت اور بسم اللہ باقی بچ جاتے ہیں جو کہ اس آیت میں مذکور نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ سنت میں وارد ہوئے ہیں ۔[4] یعنی امام شوکانی کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ وضو کا بیان یہ بھی یاد رہے کہ وضو کے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ان کا دھو لینا مستحب ہے اور جب نیند سے اٹھا ہو تب تو سخت تاکید آتی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو کر برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک کہ تین مرتبہ دھو نہ لے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ رات کے وقت کہاں رہے ہیں ۔[5] ﴿فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ﴾: ’’وَجْہٌ‘‘ لغت میں مواجہت (سامنا کرنا) سے ماخوذ ہے یہ کئی اعضاء پر مشتمل ایک عضو ہے۔ یہ لمبائی، چوڑائی بھی رکھتا ہے، لمبائی میں اس کی حد پیشانی کی سطح سے لے کر داڑھوں
[1] صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی، حدیث: ۱۔ صحیح مسلم: ۱۹۰۷۔ (ابن کثیر: ۱/۹۳۰)۔ [2] سنن ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب فی التسمیۃ علی الوضوء، رقم: ۱۰۱۔ ابن ماجہ: ۳۹۹۔ الحاکم: ۱/۱۴۶۔ و صححہ الالبانی۔ الارواء: ۸۱۔ المشکاۃ: ۴۰۴۔ [3] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۳۰۔ [4] فتح القدیر: ۲/۲۴۔ [5] صحیح البخاری، کتاب وضو، باب الاستجمار وترا، حدیث: ۱۶۲۔ صحیح مسلم: ۲۷۸۔ (ابن کثیر: ۱/۹۳۰)۔