کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 272
ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے یہ دیکھ کر حضرت فضیل بن مبشر رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ فرمایا نہیں بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔[1] مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے صاحب زادے عبیداللہ سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے؟ فرمایا: ان سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب نے کہا ہے کہ ان سے حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تھے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرنماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس حالت میں کہ وضو باقی ہو تب بھی نہ ہو تو تب بھی۔ مگر اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکھا گیا۔ مگر جب وضو ٹوٹے تو نماز کے لیے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے، اس لیے وہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے ہیں آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا۔[2] حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے۔[3] وضو کس لیے ہے؟ سنن ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے اور کھانا آپ کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا: اگر فرمائیں تو وضو کا پانی حاضر کریں ۔ فرمایا: وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کے لیے کھڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے۔ [4] ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں ؟[5]
[1] سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء، لکل صلاۃ…، رقم: ۵۱۱۔ الطبری: ۱۱۳۲۱۔ اپنے شواہد کے ساتھ حسن ہے۔ [2] ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب السواک، رقم: ۴۸۔ مسند احمد: ۵/۲۲۵۔ الحاکم: ۱/۱۵۶۔ و حسنہ الالبانی رحمة الله عليه ۔ [3] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۲۸-۹۲۹۔ [4] امام ترمذی اسے حسن بتاتے ہیں ۔ سنن ابو داود، کتاب الأطعمۃ، باب فی غسل الیدین عند الطعام، رقم: ۳۷۶۰۔ ترمذی: ۱۸۴۷۔ [5] صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب جواز اکل المحدث الطعام، رقم: ۳۷۴۔ مسند احمد: ۱/۲۲۲۔ (ابن کثیر: ۹۳۰)۔