کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 270
کتابیہ عورت سے نکاح
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے یہ بطور تمہید کے ہے، اسی لیے اس کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد ﴿مُحْصَنٰتُ﴾ سے آزاد عورتیں ہیں ، یعنی لونڈیاں نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت مجاہد رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اور حضرت مجاہد کے الفاظ یہ ہیں کہ ﴿مُحْصَنٰتُ﴾ سے آزاد مراد ہیں اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لیے جا سکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار جیسا کہ ان سے دوسری روایت انہی لفظوں میں موجود ہے اورجمہور بھی یہی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے، پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں ۔ جیسے دوسری آیت میں ﴿مُحْصَنٰتُ﴾ کے ساتھ ہی ﴿غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَانٍ﴾ (النساء: ۲۵) آیا ہے۔[1]
کتابیہ عورت سے نکاح کی شرائط
کتابیہ عورتوں سے نکاح کی شرائط وہی ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں ، یعنی نکاح کا مقصد محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ہو اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان ہو اور ان کے حق مہر باقاعدہ انہیں ادا کر دئیے جائیں ۔ مگر کتابیہ عورت سے نکاح صرف اس صورت میں جائز ہو گا جب کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔ مثلاً ایک شخص اگر کسی خوبصورت کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد اس کے دین کی طرف مائل ہو جائے تو ایسی صورت میں نکاح ہرگز جائز نہ ہو گا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں الفاظ ﴿وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے اس خطرہ کے پیش نظر حتی الامکان کتابیہ عورتوں سے نکاح سے بچنا ہی بہتر ہے اور اگر ایسی اضطراری حالت ہو کہ نکاح نہ کرنے سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھر نکاح کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔[2]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۲۶۔
[2] تیسیر القرآن: ۱/۵۰۳۔