کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 269
دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی کھڑے تبسم فرما رہے ہیں ۔[1] اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شانے کا گوشت پسند ہے، چنانچہ آپ نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا: مجھ میں زہر ملا ہوا ہے۔ آپ نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ بھی گیا، آپ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اسی کے اثر سے راہی بقا ہوئے۔ جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا جس کا نام زینب تھا۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مع اپنے ساتھیوں کے اس کے گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ فرما لیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حرام جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی۔[2] اہل کتاب کا کھانا کن شرائط کے تحت حلال ہے؟ اہل کتاب کا کھانا انہی شرائط کے تحت حلال ہے جو اوپر مذکور ہو چکیں ، یعنی ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، چیز پاکیزہ ہو اور ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز مثلاً شراب یا سور کا گوشت وغیرہ نہ ہو اور اگر ان کے دسترخوان پر ایسی اشیاء رہتی ہوں تو ان کے ساتھ کھانا تو درکنار ان کے برتن استعمال کرنا بھی جائز نہیں تاآنکہ انہیں خوب دھو کر پاک صاف کر لیا جائے اور یہ استعمال مجبوراً ہو۔ رہے غیر اہل کتاب تو نہ ان کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور نہ ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے۔ نیز جو جانور ذبح نہ کیے جائیں بلکہ آرے سے ان کا گلا کاٹ کر الگ کر دیا جائے یا کسی اور طریقے سے انہیں مارا جائے یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دور نبوی میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کم از کم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ضرور تھا مگر آج کل اہل مغرب میں سے اکثر اپنے آپ کو عیسائی کہلاتے ہیں یہ لوگ نیچری اور دہریہ قسم کے ہوتے ہیں یا دین سے بیزار ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا کھانا کیسے مسلمانوں کے لیے جائز سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں اور غیر اہل کتاب میں موجودہ دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما یصیب من الطعام فی ارض الحرب: ۳۱۵۳۔ صحیح مسلم: ۱۷۷۲۔ [2] مسند احمد: ۳/۲۱۰، ۲۱۱، ۲۷۰۔ صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب الخیاط، حدیث: ۲۰۹۲۔ ابوداود، کتاب الاطعمۃ، باب فی اکل الدباء: ۳۷۸۲۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۲۴-۹۲۵)۔ [3] تیسیر القرآن: ۱/۵۰۳۔