کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 268
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
﴿ الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾
’’آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقینا اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہے۔‘‘
ذبیحہ کس کے نام کا اور کن ہاتھوں کا حلال ہے؟
حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل صاف ستھری چیزیں حلال ہیں پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کیے ہوئے جانور کی حلت بیان فرمائی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطاء، حسن، مکحول، ابراہیم نخعی، سدی اور مقاتل بن حیان رحمہم اللہ یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا ہوا جانور ہے، جس کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔[1]
علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں ۔ جن سے اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ خیبر میں مجھے چربی سے بھری ہوئی ایک مشک مل گئی۔ میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا: اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دوں گا، اب جو ادھر ادھر نگاہ گھمائی تو
[1] تفسیر الطبری: ۹/۵۷۳، ۵۷۷۔