کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 266
بیان کے تسلسل سے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ پوری سورت ایک ہی خطبے پر مشتمل ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو گا ہو سکتا ہے کہ متفرق طور پر اس کی بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئی ہوں اور مضمون کی مناسبت سے ان کو اس سورت میں مختلف مقامات پر پیوست کر دیا گیا ہو لیکن سلسلہ بیان میں کہیں کوئی خفیف سا خلا بھی محسوس نہیں ہوتا جس سے یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ سورت دو یا تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔[1] مستدرک حاکم میں ہے، حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حج کے لیے گیا وہاں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم سورۂ مائدہ پڑھا کرتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں ، فرمایا: سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے۔ اس میں جس چیز کو حلال پاؤ، حلال ہی سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام پاؤ حرام ہی جانو۔[2] حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباء کی نکیل تھامے ہوئے تھی جب آپ پر سورۂ مائدہ پوری نازل ہوئی قریب تھا کہ اس بوجھ سے اونٹنی کی اگلی ٹانگیں ٹوٹ جائیں ۔[3] اس سورت کے مباحث یہ سورت حسب ذیل تین بڑے بڑے مضامین پر مشتمل ہے: ۱۔ مسلمانوں کی مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔ اس سلسلے میں سفر حج کے آداب مقرر کیے گئے شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا۔ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دور جاہلیت کی بندشوں کو توڑ دیا گیا۔ اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی، وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں معین کی گئیں ، شراب اور جوے کو قطعی حرام کر دیا گیا، قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا اور قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔ مسلمانوں كو نصیحت ۲۔ اب چونکہ مسلمان ایک حکمران گروہ بن چکے تھے ان کے ہاتھ میں طاقت تھی جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے، مظلومی کا دور خاتمے پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۳۴۔ [2] اخرجہ النسائی فی الکبری: ۱۱۱۳۸۔ الحاکم: ۲/۳۱۱۔ حاکم و ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [3] مسند احمد: ۶/۴۵۵۔ طبرانی الکبیر: ۲۴/۱۷۸۔ المجمع: ۷/۱۳۔ اس میں شہر بن حوشب اور لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے مگر حدیث اپنے شواہد کے ساتھ حسن ہے۔ (دیکھیں : در منثور: ۲/۴۴۶۔ دیکھیے: تفسیر ابن کثیر: ۱/۸۹۴۔ فتح القدیر: ۲/۵)۔