کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 265
سورة المائدة
اس سورت کا نام پندرہویں رکوع کی آیت ﴿ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ﴾ کے لفظ مائدہ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورت کے موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں ۔ محض دوسری سورتوں سے ممیز کرنے کے لیے اسے علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔[1]
زمانۂ نزول
سورت کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد ۶ ہجری کے اواخر یا ۷ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدۃ ۶ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے مگر کفار نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا اور بڑی رد و کدح کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ زیارت کے لیے آ سکتے ہیں ۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارت کعبہ کے لیے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے اور دوسری طرف انہیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرے سے روک کر جو زیادتی کی ہے اس کے جواب میں خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں ، اس لیے کہ بہت سے کافر قبیلوں کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ جس طرح انہیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورت کا آغاز ہوا ہے۔ آگے چل کر تیرہویں رکوع میں پھر اس مسئلے کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلۂ تقریر چل رہا ہے، اس کے علاوہ جو دوسرے مضامین اس سورت میں ہم کو ملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دور کے معلوم ہوتے ہیں ۔
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۳۴۔