کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 264
موجود ہے اور اس کی ایک بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو آدھا بہن کو مل جائے گا اور اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو پھر عول کے طریقہ پر کل جائیداد کے چھ کے بجائے سات حصے کر کے تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو حسب قاعدہ ﴿لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ آدھی میراث ان میں تقسیم ہو گی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی صورت ہو، یعنی کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا تو اس کو مل گیا باقی آدھا کسے ملے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدھا رد کے طور پر بہن کو بھی دیا جا سکتا ہے اور ذوی الارحام (یعنی ایسے رشتے دار جو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبہ) یعنی دور کے رشتہ داروں مثلاً ماموں پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انہیں ملے گا اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کروایا جا سکتا ہے اور ایسے حالات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں ۔[1]
[1] تیسیر القرآن: ۱/۴۹۴۔