کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 263
مذہب ہے کہ بہنیں بیٹیوں کی عصبہ نہیں بنتیں ۔ داؤد ظاہری اور ایک گروہ نے یہی راہ اختیار کی ہے۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ سگی یا اخیافی بہن بیٹی کے ساتھ وارث نہیں بنتی، انہوں نے اس آیت کے ظاہر سے دلیل لی ہے۔ یہاں بیٹی کو وارث بنانے کے لیے ولد جس میں بیٹا اور بیٹی دونوں آ جاتے ہیں اس کے نہ ہونے کی قید لگائی گئی ہے۔ یہ استدلال صحیح ہوتا اگر سنت میں یہ بات وارد نہ ہوئی ہوتی جو بہن کے بیٹی کے ساتھ وارث بننے پر دلالت کرتی ہے اور یہ بات صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بیٹی اور بہن کے بارے فیصلہ کیا، چنانچہ انہوں نے بیٹی کو آدھا اور آدھا بہن کو دے دیا۔ نیز ایسے ہی صحیح بخاری میں یہ ثابت ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی، پوتی اور بہن کے بارے فیصلہ کیا، چنانچہ آپ نے بیٹی کو نصف دلایا پوتی کو چھٹا حصہ جبکہ باقی بہن کو عطا کر دیا۔‘‘ لہٰذا سنت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ’’ولد‘‘ کی تفسیر بیٹے سے کی جائے نہ کہ بیٹی سے۔[1] کلالہ کی میراث کی تقسیم اولاد تین قسم کی ہوتی ہے: (۱) عینی یا حقیقی یا سگے بہن بھائی جن کے ماں باپ ایک ہوں ۔ (۲) علاتی یا سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں ۔ (۳) اخیافی یا ماں جائے۔ جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں ۔ اسی سورت کی آیت نمبر ۱۲ میں جو کلالہ کی میراث کے احکام بیان ہوئے تھے وہ اخیافی بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے تھے، کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی موجود ہوں اور سوتیلے بھی تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے محروم رہیں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلوں میں جائیداد تقسیم ہو گی اور دوسرے یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہو گی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے، یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا دو ہوں یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام ترکہ کا واحد وارث ہو گا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو ۲ حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ اب کلالہ کی بھی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ عورت ہو اور اس کا خاوند بھی موجود نہ ہو یا مرد ہو اور اس کی بیوی بھی نہ ہو اور دوسری یہ کہ میت مرد ہو اور اس کی بیوی موجود ہو یا میت عورت ہو اور اس کا خاوند موجود ہو۔ دوسری صورت میں زوجین بھی وراثت میں مقررہ حصے کے حق دار ہوں گے۔ مثلاً کلالہ عورت سے جس کا خاوند
[1] فتح القدیر: ۱/۶۸۴۔