کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 262
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں بیماری کے سبب بے ہوش پڑا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپ نے وضو فرمایا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا جس سے مجھے افاقہ ہوا اور میں نے کہا حضور! وارثوں کے لحاظ سے میں کلالہ ہوں میری میراث کیسے بٹے گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت فرائض نازل فرمائی۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیش آنے والے مشکل مسائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مشکل مسائل پیش آئے تھے ان میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا، چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین چیزوں کے متعلق میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے دادا کی میراث، کلالہ اور سود کے ابواب۔[2] کلالہ کی وضاحت صحیح قول جمہور کا ہے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کا نہ ولد ہو اور نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے بعد کے الفاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو فرمایا ﴿وَ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ﴾ یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے لیے کل چھوڑے ہوئے مال کا آدھوں آدھ ہے اور اگر بہن باپ کے ساتھ ہو تو باپ اسے ورثہ پانے سے روک دیتا ہے اور اسے کچھ بھی اجماعاً نہیں ملتا، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد نہ ہو اور یہ تو نص سے ثابت ہے اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے ثابت ہوتا ہے لیکن قدرے غور کے بعد، اس لیے کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ ورثے سے محروم ہوتی ہے۔[3] ﴿وَ لَہٗٓ اُخْتٌ﴾ اس کا عطف اللہ کے قول ﴿لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ﴾ پر ہے جبکہ یہاں ’’اخت‘‘ سے مراد سگی یا باپ کی طرف سے بہن ہے نہ کہ ماں کی طرف سے کیونکہ اس کا مقرر شدہ حصہ تو چھٹا حصہ ہے جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے نیز صحابہ و تابعین اور بعد کے لوگوں میں سے جمہور علماء اس طرح گئے ہیں کہ سگی یا اخیافی بہنیں بیٹیوں کے لیے عصبہ ہوتی ہیں ۔ اگرچہ ان (بہنوں ) کے ساتھ بھائی نہ ہی ہو جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا
[1] صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب قول اللہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولادکم، رقم: ۶۷۲۳۔ صحیح مسلم: ۱۶۱۶۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الاشربۃ، باب ما جاء ان الخمر ما خامر العقل…، رقم: ۵۵۸۸۔ صحیح مسلم، کتاب التفسیر، باب فی نزول تحریم الخمر، رقم: ۳۰۳۲۔ ابن حبان: ۵۳۵۳۔ [3] تفسیر ابن کثیر: ۱/۸۹۰-۸۹۱۔