کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 261
﴿ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ’’وہ آپ سے فتویٰ مانگتے ہیں ، کہہ دیجیے اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی آدمی مر جائے، جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کا نصف ہے جو اس نے چھوڑا اور وہ (خود) اس (بہن) کا وارث ہوگا، اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر وہ دو (بہنیں ) ہوں تو ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہوگا جو اس نے چھوڑا اور اگر وہ کئی بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوگا۔ اللہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ سے مسلمانوں کے ساتھی ہیں نہ بالکل کفار کے ساتھ۔ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی تصدیق کرنے لگے کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آ گئیں تو ایمان سے الگ تھلگ ہو گئے۔ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرف ہیں نہ یہودیوں کی جانب۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ منافق کی مثال ایسی ہے جیسی دو ریوڑ کے درمیان کی ایک بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف بھاگتی ہے کبھی اس طرف اس کے نزدیک ابھی طے نہیں ہوا کہ ان میں جائے یا اس کے پیچھے لگے۔[1] شانِ نزول تفسير:… حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سورتوں میں سب سے آخری سورت سورۂ براء ۃ اتری ہے اور آیتوں میں سب سے آخری آیت ﴿یَسْتَفْتُوْنَکَ﴾ اتری ہے۔[2]
[1] صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین، باب صفات المنافقین، رقم: ۲۷۸۴۔ مسند احمد: ۲/۱۰۲۔ طبری: ۱۰۷۳۳۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۸۵۰-۸۵۱)۔ [2] صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء، باب و یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ، رقم: ۴۶۰۵۔ صحیح مسلم: ۱۶۱۸۔