کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 260
نہیں ، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھکے ماندے بدن سے کسمسا کر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے نمازی کو چاہیے کہ ذوق و شوق سے راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے کے اس کی آواز کو اللہ تعالیٰ سن رہے ہیں ، اس کی طلب پوری کرنے کے لیے اللہ تعاتی تیار ہیں ، یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کے تھکے ہارے تنگ دلی کے ساتھ بطور بیگار ٹالنے کے نماز کے لیے آئے، پھر اندرونی حالت یہ ہے کہ اخلاص سے کوسوں دور ہیں ۔ رب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، نمازی مشہور ہونے کے لیے لوگوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے نماز پڑھ رہے ہیں ، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے کو کم دیکھ سکیں ۔ یہ غیر حاضر رہتے ہیں مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : سب سے زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے۔ دراصل اگر یہ ان نمازوں کے فضائل کے دل سے قائل ہوتے تو ان کو گھٹنوں کے بل بھی چل کر آنا پڑتا تو یہ ضرور آ جاتے میں تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کی جگہ کھڑا کر کے نماز شروع کروا کر کچھ لوگوں سے لکڑیاں اٹھوا کر ان کے گھر میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے اور گھروں کے ارد گرد لگا کر حکم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے گھروں کو جلا دو۔[1] ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر انہیں ایک چرب ہڈی یا دو اچھے اچھے کھر ملنے کی امید ہو تو دوڑے چلے آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے ثوابوں کی انہیں اتنی بھی قدر نہیں اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں مجھے خیال نہ ہوتا تو قطعا میں ان کے گھر جلا دیتا۔[2] پھر فرمایا: یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت کم کرتے ہیں ، یعنی نماز میں ان کا دل نہیں لگتا یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے بھی نہیں بلکہ غافل دل اور بے پروا نفس سے نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا اور شیطان نے اپنے دونوں سینگ اس کے اردگرد لگا دئیے تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے نام ہی کیا۔[3] یہ منافق ششدر و پریشان حال ہیں اور کفر کے درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے نہ تو صاف طور
[1] صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعۃ: ۶۵۷۔ صحیح مسلم: ۶۵۱۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ: ۶۴۴۔ مسند احمد: ۲/۳۶۷۔ [3] صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب التکبیر بالعصر، رقم: ۶۲۲۔ سنن ابو داود: ۴۱۳۔