کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 259
﴿ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ ’’بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں ، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔‘‘ منافق کی نماز اور اس کا کردار تفسير:… سورۂ بقرہ کے شروع میں بھی آیت نمبر۹ ﴿یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ﴾ اسی مضمون کی گزر چکی ہے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے سامنے چالیں چلتے ہیں جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے۔ کم فہمی سے یہ خیال کیے بیٹے ہیں کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے جلے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس بھی یہ مکاری چل جائے گی، چنانچہ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر و علیم کے سامنے اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے جیسے یہاں کھاتے ہیں لیکن اس عالم الغیب کے سامنے یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں ہو سکتیں ۔ اللہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے وہ ڈھیل دیتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں اور اپنے لیے اسے اچھائی سمجھتے ہیں ۔ قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہو گا مسلمانوں کے نور کے سہارے میں ہوں گے وہ آگے نکل جائیں گے یہ آوازیں دیں گے کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں ، جواب ملے گا کہ پیچھے مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ۔ یہ مڑیں گے ادھر حجاب حائل ہو جائے گا۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے لیے زحمت، حدیث شریف میں ہے: جو سنائے گا اللہ بھی اسے سنائے گا اور جو ریاکاری کرے گا اللہ بھی اسے ویسا ہی دکھائے گا۔[1] ایک اور حدیث میں ہے: ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے کہ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے گا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ فرشتے لے جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔ پھر ان منافقوں کی بدذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے کہ انہیں نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل، حقیقی ایمان، سچا یقین، ان میں ہے ہی
[1] صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الریاء و السمعۃ حدیث: ۶۴۹۹۔ صحیح مسلم: ۲۹۸۷۔