کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 258
درحقیقت ایسا نتیجہ نکالنے کے لیے اس آیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا گیا ہوتا کہ ’’تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے۔‘‘ تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا مگر اس کے بعد ہی یہ جو فرمایا گیا کہ ’’لہٰذا ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو۔‘‘ اس فقرے نے کوئی موقع اس مطلب کے لیے باقی نہیں چھوڑا جو مسیحی یورپ کی تقلید کرنے والے حضرات اس سے نکالنا چاہتے ہیں ۔[1] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے: ا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔[2] ب… سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب (مرض الموت) میں بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ کی تیمارداری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی۔[3] میاں بیوی میں عدم نباہ کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔[4]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۰۳-۴۰۴۔ [2] دارمی، کتاب النکاح، باب فی العدل بین النساء۔ ترمذی: ۱۱۴۱۔ مشکاۃ المصابیح: ۳۲۳۶۔ صحیح ہے۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الہبۃ، باب ہبۃ الرجل لامرأتہ و المرأۃ لزوجہا۔ (تیسیر القرآن: ۱/۴۶۹)۔ [4] تیسیر القرآن: ۱/۴۷۰۔