کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 257
﴿وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ﴾ یہ اللہ پاک کی جانب سے خبر دی جا رہی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں یہ شحّ پائی جاتی ہے بلکہ کوئی انسانی نفس اس سے خالی نہیں اللہ نے اسے ایسا بنا دیا ہے کہ یہ لالچ اس میں ہر وقت موجود رہتی ہے کسی بھی حال میں اس سے غائب نہیں ہوتی اور یہ جبلی اور فطرتی اعتبار سے ہے، چنانچہ مرد کے ذمے عورت سے حسن معاشرت اور اچھا نفقہ جیسی باتیں لازم ہوتی ہیں ان میں وہ لالچ سے کام لیتا ہے جبکہ عورت کے ذمے جو خاوند کے لازمی حقوق ہوتے ہیں وہ ان میں لالچ سے کام لیتی ہے اپنے کسی حق سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔[1] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں ۔ جیسا کہ حدیث نمبر ۲ سے معلوم ہوتا ہے، یعنی عورت اگر اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقینا مرد کا دل بھی نرم ہو جائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔[2] ﴿وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا﴾ یعنی تم عورتوں کے ساتھ اچھی زندگی بسر کرو اور ناجائز اعراض و بُعد سے بچو تو ﴿فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاo﴾ تو یقینا اے خاوندوں کی جماعت وہ تمہیں جس کے تم مستحق ہو بدلہ دے گا۔ بیویوں کے درمیان عدل کی حقیقت مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام حالات میں تمام حیثیتوں سے دو یا زائد بیویوں کے درمیان مساوات نہیں برت سکتا۔ ایک خوب صورت ہے اور دوسری بدصورت ایک جوان ہے اور دوسری سن رسیّدہ، ایک دائم المرض ہے اور دوسری تندرست ایک بدمزاج ہے اور دوسری خوش مزاج اور اسی طرح کے دوسرے تفاوت بھی ممکن ہیں جن کی وجہ سے ایک بیوی کی طرف طبعاً آدمی کی رغبت کم اور دوسری کی طرف زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسی حالتوں میں قانون یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ محبت و رغبت اور جسمانی تعلق میں ضرور ہی دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تم بے رغبتی کے باوجود ایک عورت کو طلاق نہیں دیتے اور اس کو اپنی خواہش کی بنا پر بیوی بنائے رکھتے ہو تو اس سے کم از کم اس حد تک تعلق ضرور رکھو کہ وہ عملاً بے شوہر ہو کر نہ رہ جائے۔ ایسے حالات میں ایک بیوی کی نسبت دوسری کی طرف میلان زیادہ ہونا فطری امر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ دوسری یوں معلق ہو جائے گویا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں ہے۔ اس آیت سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن ایک طرف عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے اور دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر اس اجازت کو عملاً منسوخ کر دیتا ہے لیکن
[1] فتح القدیر: ۱/۶۵۷۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۴۶۹۔