کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 255
کیا شوہر ہر حال میں بیویوں سے عدل پر مجبور ہے؟ تفسير:… یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کرنے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے، سورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہوئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہو گئیں : ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل (یعنی مساویانہ برتاؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے یا دائم المرض ہے یا تعلق زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے اور شوہر دوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسری شادی کرنے سے پہلے پہلی بیوی کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنے بعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کرے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلاف تو نہ ہو گا؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔[1] میاں بیوی میں صلح و خیر کا اصول آیت کا ظاہر یہی واضح کر رہا ہے کہ کسی بھی قسم کے نشوز و اعراض کا خوف ہو تو مصالحت کی گنجائش ہے جبکہ لفظ کی عمومیت معتبر ہوتی ہے نہ کہ سبب کی خصوصیت جس کا بیان آگے آ رہا ہے، آیت کا ظاہر یہی بتاتا ہے کہ آپس میں مصالحت کی کسی بھی قسم کو اختیار کرنا جائز ہے اس کا تعلق باری ختم کرنے سے ہو یا باری کی کسی شق کو موقوف کر کے ممکن ہو یا کچھ نفقہ چھوڑنا پڑے یا کچھ حق مہر چھوڑ کر ممکن ہو ہر طرح سے جائز ہے۔[2] حضرت سودہ بنت زمعہ جب بہت بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضور انہیں جدا کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کہتی ہیں : میں اپنی باری کا حق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں ، چنانچہ اس پر صلح ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔ ابو داؤد میں اسی پر یہ آیت اتری۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میاں بیوی جس بات پر رضامند ہو جائیں وہ جائز ہے۔[3]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۰۲۔ [2] فتح القدیر: ۱/۶۵۶۔ [3] سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النساء: ۳۰۴۰۔ الطیالسی: ۲۶۸۳۔ طبری: ۱۰۶۱۳۔ صحیح ہے۔ الارواء: ۲۰۲۰۔