کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 254
﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٢٨﴾ وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٢٩﴾ وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ﴾ ’’اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے، اور تمام طبیعتوں میں حرص (حاضر) رکھی گئی ہے اور اگر تم نیکی کرو اور ڈرتے رہو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔ اور تم ہر گز نہ کر سکو گے کہ عورتوں کے درمیان برابری کرو، خواہ تم حرص بھی کرو، پس مت جھک جاؤ (ایک کی طرف) مکمل جھک جانا کہ اس (دوسری) کو لٹکائی ہوئی کی طرح چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور ڈرتے رہو تو بے شک اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا اور اللہ ہمیشہ سے وسعت والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ سر دھرا پیدا نہ ہو جائے جو کل اس کے حق کا مطالبہ کرنے والا ہو۔[1] بعض مفسرین نے اس اس آیت سے یتیم بچیوں کا وراثت کا حصہ مراد لیا ہے جس کے احکام پہلے اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۱ میں گزر چکے ہیں ۔ دور جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ وہ نہ میت کی بیوی کو وراثت سے کچھ حصہ دیتے تھے اور نہ یتیم لڑکیوں کو بلکہ وراثت کے حق دار صرف وہ لڑکے سمجھے جاتے تھے جو لڑائی کرے اور انتقام لینے کے قابل ہوں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کی رو سے بیواؤں یتیم لڑکیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کو بھی وراثت میں حق دار بنا دیا اور اس آیت میں ﴿مَا کُتِبَ لَہُنَّ﴾ کے الفاظ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں ۔[2]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۰۱-۴۰۲۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۴۶۸۔