کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 251
﴿ وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا﴾
’’اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو، یا جواب میں وہی کہہ دو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا پورا حساب کرنے والا ہے۔‘‘
سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو
تفسير:… جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ کے ساتھ اس کا جواب دو یا کم سے کم انہیں الفاظ کو دوہرا دو، پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے۔[1]
جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا کرتا ہے شرعی نقطۂ نظر سے آپس میں سلام کہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سے اسلامی معاشرہ میں اخوت پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ اس بارے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بہتر اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو (دوسروں کو کھانا) کھلائے اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے اور اسے بھی جسے تم نہیں جانتے۔‘‘[2]
سلام کے آداب
۲۔ سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا: السلام علیکم! تو آپ نے فرمایا: دس (یعنی اس کے لیے دس نیکیاں ہیں ) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ تو آپ نے فرمایا: بیس۔ پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیس۔[3]
۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے پھر اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر آ جائے پھر اس سے ملاقات کرے تو پھر سلام کہے۔[4]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۹۲۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام۔
[3] سنن ترمذی، ابواب الاستیذان، باب فضل السلام۔ صحیح سنن ترمذی: ۲۱۶۳۔
[4] سنن ابو داود، کتاب الادب، باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ أیسلم علیہ۔ قال الشیخ الالبانی صحیح موقوفا و مرفوعا: ۵۲۰۰۔