کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 249
مسند احمد میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا ہے جو چہرے کے لیے اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لیے ہے۔‘‘[1]
آیت تیمم کا شان نزول
تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ سن لیجیے ہم اس واقعہ کو سورۂ نساء کی آیت کی تفسیر میں اس لیے بیان کرتے ہیں کہ سورۂ مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہونے میں اس کے بعد کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے یہودیوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورۂ مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نیک توفیق دے اور اسی کا بھروسہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار واپس کر دینے کے وعدہ پر مستعار لیا تھا اور وہ سفر میں کہیں گم ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کے لیے آدمی بھیجے انہیں ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں ہی آ گیا جبکہ ان کے پاس پانی نہ تھا انہوں نے بے وضو نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے ام المومنین عائشہ! اللہ آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر ہوتا ہے۔[2]
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں ۔ میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا جس کے ڈھونڈنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع قافلہ ٹھہر گئے۔ اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا۔ لوگ میرے والد ابوبکر کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑ گئے۔ چنانچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے۔ آتے ہی مجھے کہنے لگے: تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے اور نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے۔ الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں ہاتھ سے کچوکے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہو۔ ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا۔ اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ
[1] مسند احمد: ۴/۲۶۳۔ ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، رقم: ۳۲۷۔ صحیح ہے۔ (ابن کثیر: ۱/۷۴۵تا ۷۴۸)۔
[2] صحیح بخاری، کتاب التیمم، باب اذا لم یجد ماء و لا ترابا: ۳۳۶۔ صحیح مسلم: ۳۶۷۔ مسند احمد: ۶/۵۷۔