کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 248
’’صعید‘‘ کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین سے اوپر کو چڑھے، پس اس میں مٹی ریت، درخت، پتھر، گھاس بھی داخل ہو جائیں گے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول یہی ہے، اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا۔ یہ مذہب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے۔ اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں ﴿فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا﴾ (الکہف: ۴۰) یعنی ہو جائے وہ مٹی پھسلتی۔
دوسری دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ۔ ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کی ہیں ۔ ہمارے لیے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنائی گئی جب ہم پانی نہ پائیں ۔‘‘[1]
اور مسند میں بجائے تربت کے تراب کا لفظ مروی ہے۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتانے کے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی۔ اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام آنے والی ہوتی اس کا بھی ساتھ ہی ذکر کر دیتے۔
یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے، مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم پر بہائے، یہ اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘[2]
پھر فرمان ہے اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں میں ملو۔ تیمم وضو کا بدل ہے۔ صرف پاکیزگی حاصل کرنے میں نہ کہ تمام اعضاء کے بارے میں تو منہ اور دونوں ہاتھوں پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے۔
مسند احمد میں ہے ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا:’’ نماز نہ پڑھنی چاہیے۔‘‘ دربار میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، فرمانے لگے: امیر المومنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہو گئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز ادا کر لی۔ جب ہم واپس پلٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعے کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا:’’ مجھے اتنا کافی تھا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک مار دی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا۔‘‘[3]
[1] صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد و مواضع الصلاۃ: ۵۲۲۔ مسند احمد: ۵/۳۸۳۔
[2] ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب الجنب، یتیمم، رقم: ۳۳۲۔ سنن ترمذی: ۱۲۴۔ صحیح عند الالبانی الارواء: ۱۵۳۔ المشکاۃ: ۵۳۰۔
[3] صحیح البخاری، کتاب التیمم، باب التیمم ہل ینفخ فیہما: ۳۳۸۔ صحیح مسلم: ۳۶۸۔ مسند احمد: ۴/۲۶۵-۳۲۰۔