کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 247
خوف ہو۔[1]
﴿الْغَآئِطِ﴾ یہ پست زمین کو کہتے ہیں ، اسے آنا، یہ قضائے حاجت سے کنایہ ہے جبکہ اس کی جمع غیطان اور اغواط آتی ہے۔ عرب قضائے حاجت کے لیے ایسی زمین کا قصد کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کی نظروں سے بچ سکیں پھر وسعت اختیار کرتے ہوئے انسان سے خارج ہونے والے بول و براز پر غَآئِط کا نام چسپاں کر دیا گیا۔ غَآئِطِ میں وضو کو توڑنے والے جمیع احداث داخل ہیں۔[2]
﴿اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ﴾ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان دونوں اقوال میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد جماع ہے نہ کہ اور کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کو بوسہ دیا اور بغیر وضو کے نماز پڑھی۔[3]
ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے، بوسہ دیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔ حضرت حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کو بوسہ دیتے نماز کو جاتے، میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں ۔‘‘[4]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔‘‘ اس سے اکثر فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لیے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلک ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا: تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں ؟ اس نے کہا :اے اللہ کے رسول! ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا۔ آپ نے فرمایا:’’ پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی ہے۔‘‘[5]
تیمم اور صعید کا معنی
تیمم کے لفظ معنی قصد کرنے کے ہیں عرب کہتے ہیں تَیَمَّمَکَ اللّٰہُ بِحِفْظِہٖ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے۔[6]
پھر اس کلمہ کا اکثر استعمال ہونے لگا حتیٰ کہ مٹی والا ہاتھ چہرے اور ہاتھوں پر پھیرنے کا نام ہی تیمم پڑ گیا۔[7]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۴۲۔
[2] فتح القدیر: ۱/۵۹۲۔
[3] اخرجہ الطبری: ۹۶۳۴۔
[4] سنن ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من القبلۃ، رقم: ۱۷۹۔ سنن ترمذی: ۸۶۔ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۴۴-۷۴۵)۔
[5] صحیح بخاری، کتاب التیمم، باب ۹، حدیث: ۳۴۸۔ صحیح مسلم: ۶۸۲۔
[6] ابن کثیر: ۱/۷۴۵۔
[7] فتح القدیر: ۱/۵۹۵۔