کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 245
ہے۔ مسند احمد میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے حتیٰ کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بخاری و نسائی میں یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طریق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ تو اپنے لیے استغفار کرنا چاہے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے۔[1] اس میں لفظ خمر (شراب) کی بجائے سکر (نشہ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے ازخود یہ معلوم ہو گیا کہ شراب کی طرح ہر نشہ آور چیز حرام ہوتی ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ چونکہ نشہ کی حالت بھی نیند کی غشی کی طرح ایک طرح کی غشی ہی ہوتی ہے، لہٰذا انسان کو یہ معلوم رہنا مشکل ہے کہ آیا اس کا وضو بھی بحال ہے یا ٹوٹ چکا ہے۔ غالباً اسی نسبت سے اس آیت میں آگے طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں ۔[2] جنابت کے معنی جنابت کے اصل معنی دوری اور بے گانگی کے ہیں اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے۔ اصطلاح شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضائے شہوت سے یا خواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔[3] جنابت اور آداب مسجد پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک کہ غسل نہ کر لے۔ مگر بطور گزرنے کے مسجد میں سے گزر جانا جائز ہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے۔ لیکن مسجد کی ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں ، مسجد میں بیٹھے نہیں ۔‘‘[4] اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں : بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے۔ انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں ۔[5] صحیح بخاری کی ایک حدیث سے بھی بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے
[1] صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم، رقم: ۲۱۲-۲۱۳۔ صحیح مسلم: ۷۸۶۔ سنن النسائی: ۴۴۴۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۴۰-۷۴۱)۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۴۰۷۔ [3] تفہیم القرآن: ۱/۳۵۵۔ [4] تفسیر طبری: ۸/۳۸۲۔ [5] تفسیر الطبری: ۸/۳۸۱-۳۸۴۔