کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 244
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! نماز کے قریب نہ جاؤ، اس حال میں کہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم جانو جو کچھ کہتے ہو اور نہ اس حال میں کہ جنبی ہو، مگر راستہ عبور کرنے والے، یہاں تک کہ غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو، یا سفر پر، یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر ملو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘
شان نزول
تفسير:… ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دعوت کی لوگ گئے سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہو گئے اتنے میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورہ ﴿قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ﴾ میں اس طرح پڑھا ((مَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَ نَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ)) اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے۔[1]
ابن جریر کی روایت کے مطابق یہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور تیسرے ایک اور صاحب حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قراء ت خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری۔[2]
نیند کی حالت میں نماز کا حکم
یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد ہے، یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا جو اپنی بات نہ سمجھ سکے، نشہ والا انسان قراء ت خلط ملط کر دے گا۔ اسے سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا موقع ہی نہ ملے گا۔ نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع و خضوع حاصل ہو سکتا
[1] سنن ابو داود، کتاب الاشربۃ، باب تحریم الخمر، رقم: ۳۶۷۱۔ و ترمذی: ۳۰۲۶۔ صحیح ہے۔
[2] سنن ابو داود اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔ دیکھیں حوالہ سابقہ۔ (ابن کثیر: ۱/۷۴۰)۔