کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 243
طرف سے ہے، پس ظالم کو ظلم سے روکے اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے تو عورت والوں میں سے ایک اس کی طرف سے اور مرد والوں میں سے ایک بہتر شخص اس کی جانب سے منصف مقرر کر دے اور دونوں مل کر تحقیق کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں ۔[1]
یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں ورنہ دونوں خاندان کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کر لیں اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کارروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔[2]
حکمین کے اختیارات و فرائض
فیصلہ کنندگان کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپس کی اصلاح کے لیے پورا زور لگائیں اگر ان کا بس چلتا ہو تو جبکہ اگر ان کی حالت ناقابل اصلاح ہو اور یہ ان میں تفریق کروانے کا ارادہ باندھ لیں تو شہر کے حاکم کے حکم اور زوجین کی جانب سے جدائی کا وکیل بنائے جانے کے بغیر بھی ان کے لیے اس بات کی گنجائش ہے۔ یہی بات مالک، اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ نے کہی ہے اور یہی بات سیّدنا عثمان، سیّدنا علی، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم ، شعبی، نخعی و شافعی رحمہم اللہ سے مروی ہے اور اسی بات کو ابن کثیر رحمہ اللہ نے جمہور سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ اللہ فرماتے ہیں :
﴿فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا﴾ نیز یہ اللہ سبحانہ کی جانب سے نص ہے کہ وہ دونوں قاضی ہیں نہ کہ گواہ و وکیل۔[3]
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علمائے کرام کا اجماع ہے کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں تو ان کا فیصلہ نافذ ہے ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے گو انہیں وکیل نہ بنایا گیا ہو۔[4]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۲۶۔
[2] تفہیم القرآن: ۱/۳۵۰-۳۵۱۔
[3] فتح القدیر: ۱/۵۸۴۔
[4] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۲۸۔