کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 242
﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾
’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
بے تحاشا نہ مارے اورایک حدیث کے مطابق کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا ملازم یا بال بچوں کو منہ پر مارے۔ تیسری پابندی یہ ہے کہ ایسی مار نہ مارے جس سے اس کی بیوی کو کوئی زخم آ جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو ایسی اضطراری حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔[1]
﴿فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ﴾ یعنی اگر وہ باز آ جاتی ہیں تو محض ان پر اپنا رعب داب قائم کرنے کے لیے پچھلی باتیں یاد کر کے ان سے انتقام نہ لو اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو اللہ جو بلند مرتبہ اور تم پر پوری قدرت رکھتا ہے تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔[2]
خلاصہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی بھی اجازت دی ہے بادلِ ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے، تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درست ہی نہیں ہوتیں ، ایسی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بے رحمی سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے۔[3]
میاں بیوی میں اصلاح کی کوشش اور مصالحت کے اصول
تفسير:… اوپر اس صورت کا بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے کہ اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوں تو کیا کیا جائے؟ پس علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ اور سمجھ دار آدمی کو مقرر کرے جو یہ دیکھے کہ ظلم و زیادتی کس
[1] تیسیر القرآن: ۱/۳۹۸۔
[2] حوالہ ایضا۔
[3] تفہیم القرآن: ۱/۳۵۰۔