کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 240
لعنت کرتے رہتے ہیں ۔‘‘[1] نشوز کا لغوی معنی بلندی یا ارتفاع، اٹھان اور ابھار کے ہیں ۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو مثلاً عورت اپنے خاوند کو اپنا ہم سر یا اپنے سے کم تر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو۔ اس کی اطاعت کی بجائے اس سے کج بحثی کرتی ہو۔ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی بجائے بدخلقی سے پیش آتی ہو اور سرکشی پر اتر آتی ہو۔ بات بات پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو یہ باتیں نشوز کے معنی میں داخل ہیں ۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔[2] عورت کی اصلاح کے تین انداز پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو، ہر طرح سمجھاؤ، اتار چڑھاؤ بتلاؤ، اللہ کا خوف دلاؤ، حقوق زوجیت یاد دلاؤ، اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے۔[3] صحیح مسلم میں ہے جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں ۔[4] تو یہاں ارشاد ہوتا ہے ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے۔ بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کو بڑی بھاری سزا ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں : ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھائے تو اسے بھی کھلا۔ جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا، اس کے منہ پر نہ مار، گالیاں نہ دے اور گھر سے
[1] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب اذا باتت المرأۃ مہاجرۃ فراش زوجہا۔ (تیسیر القرآن: ۱/۳۹۷)۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۳۹۷-۳۹۸۔ [3] مسند احمد: ۴/۳۸۱۔ ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ: ۱۸۵۳۔ صحیح ہے۔ الارواء: ۷/۷۵۵۔ سلسلۃ الصحیحۃ: ۱۲۰۳۔ [4] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا: ۱۴۳۶۔