کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 239
دے اور جب حکم دے تو بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی حفاظت کرے، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔‘‘[1]
مسند احمد میں ہے کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے، اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں چلی جاؤ۔[2]
سابقہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی بیوی کی چار صفات بیان فرمائی ہیں دو تو شوہر کی موجودگی سے تعلق رکھتی ہیں اور دو عدم موجودگی سے۔ موجودگی سے متعلق یہ ہیں کہ جب شوہر گھر میں ہو یا باہر سے کام کاج کے بعد شام کو گھر آئے تو اس کی بیوی خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔ اس کا جسم اور اس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں اور وہ اپنے خاوند کا دل موہ لے اور خاوند اسے دیکھ کر خوش ہو جائے۔ دوسری یہ کہ خاوند اسے اگر کھانے پینے سے متعلق کسی بات کے لیے کہے تو اسے فوراً بجا لائے یا اگر اسے بوس و کنار کے لیے بلائے تو بطیب خاطر اس کی بات مانے اور جب گھر میں نہ ہو تو کسی غیر مرد کو گھر میں داخل نہ ہونے دے اور نہ خود کسی غیر مرد سے آزادانہ اختلاط یا خوش طبعی کی باتیں کرے۔ نیز اپنے شوہر کے گھر کی امین ہو، اس کے مال کو نہ فضول کاموں میں خرچ کرے نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر اللہ کی راہ میں خرچ کرے الا یہ کہ اس کا مال ذاتی ہو اور نہ ہی چوری چھپے خاوند کے مال سے اپنے میکے والوں کو دینا شروع کر دے۔
مگر جب خاوند کوئی ایسا کام بتائے جو گناہ کا کام ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو اللہ کی معصیت کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں مثلاً مرد اسے نماز کی ادائیگی یا پردہ کرنے سے روکے یا اسے شرک و بدعت والے کاموں پر مجبور کرے تو اس سے انکار کر دینا ضروری ہے ورنہ وہ گنہگار ہو گی اور خاوند کی اطاعت کی حد کے بارے میں مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔‘‘[3]
۲۔ نیز آپ نے فرمایا: ’’جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو صبح تک فرشتے اس پر
[1] الطبری: ۹۳۲۹۔ الطیالسی: ۲۳۲۵۔ نزول آیت کے ذکر کے علاوہ روایت صحیح ہے۔ نیز دیکھیے: بخاری کتاب النفقات، باب حفظ المرأۃ زوجہا فی ذات یدہ۔
[2] مسند احمد: ۱/۱۹۱۔ طبرانی الاوسط: ۸۸۰۰۔ المجمع: ۴/۳۰۶۔ اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۲۴-۷۲۵)۔
[3] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب صوم المرأۃ باذن زوجہا تطوعا۔