کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 236
﴿ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّـهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ’’اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ حسد کی بجائے اللہ کا فضل طلب کرنا چاہیے تفسير:… دنیا میں اللہ نے ہر کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے کوئی مال دار ہے تو کوئی غریب ہے، کوئی حسین ہے کوئی بدصورت، کوئی تنومند اور صحت مند اور کوئی کمزور اور مستقل بیمار، کوئی سالم الاعضاء ہے تو کوئی پیدائشی اندھا یا گونگا یا بہرا ہے۔ ہَلُمَّ جَرًّا اور اسی اختلاف ہی سے اس جہان کی رنگینیاں قائم اور اس دنیا میں ایک دوسرے کے کام چلتے چلاتے رہتے ہیں اب اگر اس قدرتی اختلاف میں سے کسی بھی چیز کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اختلاف دور نہ ہو سکے گا البتہ معاشرے میں بگاڑ ضرور پیدا ہو جائے گا، اس لیے اگر اللہ نے کسی کو خوبی عطا کی ہے تو اس کے لیے حسد، ہوس اور بغض نہیں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے عوض اللہ نے تمہیں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور دی ہو گی۔ البتہ اپنے لیے اللہ کے فضل کی دعا کر سکتے ہو اور اگر سچے دل سے دعا کرو گے اور اس کام کے لیے اسباب بھی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں پر بہت عنایات کرنے والا ہے۔[1] اجر و ثواب میں مرد و عورت برابر ہیں مرد ہو یا عورت جس کی نیت میں خلوص زیادہ ہو گا تو اس کو اس کے مطابق اجر ملے گا اور اگر عورت ہمت اور قوت کار کی استعداد میں کم ہونے کے باوجود وہی نیکی کا کام سرانجام دیتی ہے جو مرد نے دیا ہے تو یقینا عورت کو اس کا اجر زیادہ ملنا چاہیے گویا ثواب کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ۔ البتہ دوسرے عوامل ثواب کی کمی بیشی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ اب اگر کوئی عورت اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ مرد
[1] تیسیر القرآن: ۱/۳۹۵۔