کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 235
وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے کہ لونڈی جب تک لونڈی ہے محصنہ نہیں ہے کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلے میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں تو وہ غیر شادی شدہ مُحْصَنٰتٍ سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دہری حفاظت کو توڑتی ہیں اگرچہ قرآن ان کے لیے سزائے رجم کی تصریح نہیں کرتا لیکن نہایت لطیف طریقے سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے۔ نبی کے ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا۔[1] لونڈی سے نکاح اور اس کی اولاد کا حکم پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لیے ہے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بے شک اسے انہی پاک دامن لونڈیوں سے نکاح کر لینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لیے کہ اس سے جو اولاد ہو گی وہ اس کے مالک کی لونڈی غلام ہو گی۔ پھر فرمایا:’’ اگر تم صبر کرو تو تمہارے لیے افضل ہے اور اللہ غفور رحیم ہے‘‘ جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو، بلکہ زنا میں واقع ہو جانے کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح کی سبکی ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔[2]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۳۴۲-۳۴۳۔ [2] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۰۷۔