کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 234
فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے مر نہ جائے، چنانچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہو جائے حد نہ مارنا۔[1] غیر شادی شدہ زانیہ لونڈی کی سزا اور مذہب جمہور ان (جمہور) کا کہنا ہے: بلاشبہ لونڈی جب زنا کرے تو اس پر پچاس کوڑے ہیں ۔ برابر ہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو۔ شادی شدہ ہو یا کنواری۔ باوجودیکہ آیت کا مفہوم اسی بات کا مقتضی ہے کہ غیر شادی شدہ لونڈی پر کوئی حد نہیں اس کے پھر مختلف قسم کے جواب آتے ہیں پھر جواب دینے والے لوگوں میں سے کچھ کا ذکر ہوتا ہے جو کہ جمہور ہیں ان کا جواب یہ ہے کہ احادیث کے الفاظ قرآن کے اس مفہوم پر مقدم ہوں گے۔ (حدیث کے الفاظ پیچھے گزرے ہیں )۔ [2] نصف رجم، منکریں حدیث کا چکمہ اور ان کا ردّ سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور ان دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں ۔‘‘ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا اس رکوع میں لفظ مُحْصَنٰتٍ (محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ایک ’’شادی شدہ عورتیں ‘‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو، دوسرے ’’خاندانی عورتیں ‘‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو۔ اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ، آیت زیر بحث میں محصنات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحْصَنٰتٍ کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے ﴿فَاِذَآ اُحْصِنَّ﴾ تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی محصنہ ہوتی ہے دوسری شوہر کی حفاظت جس کی
[1] صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب تاخیر الحد عن النفساء، رقم: ۱۷۰۵۔ سنن ترمذی: ۱۴۴۱۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۰۲)۔ [2] فتح القدیر: ۱/۵۶۹۔