کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 233
زناکار ہیں جو اپنا نکاح خود کرتی ہیں ۔[1]
﴿وَ اٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ یعنی شریعت میں جو معروف طریقہ چلتا ہے اس کے مطابق انہیں حق مہر دے دو۔ جس کا یہ قول ہے کہ لونڈی بلاشبہ اپنے آقا سے اپنے حق مہر کی زیادہ حق دار ہے اس نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے امام مالک کا بھی یہی موقف ہے۔ جبکہ جمہور کا موقف یہ ہے کہ مہر یقینی طور پر آقا کو ملے گا۔ بہرحال اس کی جو ان کی طرف نسبت ہوئی ہے تو اس لیے کہ ان کو ادائیگی کرنا ان کے آقا کو ادائیگی کرنا ہے کیونکہ یہ اس کا مال ہیں ۔[2]
﴿غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ﴾ یعنی اعلانیہ زنا کرنے والی نہ ہوں اور ’’أخدان‘‘ گہرے دوست۔[3] پھر فرمایا دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں ، یعنی نہ تو علانیہ زناکار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں ۔ جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے۔[4]
مُحْصَنٰت کا ترجمہ
آزاد عورتیں بھی ہیں اور شادی شدہ عورتیں بھی اور مذکورہ آیت میں مُحْصَنٰتٍ ﴿نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ مذکور ہے تو اس کا معنی بھی لا محالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی لینا پڑے گا اور چونکہ آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو کوڑے ہے، لہٰذا جو منکوحہ لونڈی زنا کرے اس کی سزا غیر شادی شدہ آزاد عورت سے نصف یعنی ۵۰ کوڑے ہوئے اسی طرح غلام کی سزا بھی ۵۰ کوڑے ہے اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا تعزیر ہے حد نہیں ۔ [5]
جبکہ صحیح یہ ہے کہ اسے بھی حد ہی لگے گی جس طرح کہ آگے ہم تفسیر ابن کثیر سے روایت کو درج کر رہے ہیں ۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا: لوگو! اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ (شادی شدہ) ہوں یا نہ ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو
[1] سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب لا نکاح الا بولی، رقم: ۱۸۸۲۔ ’’وہ عورتیں زناکار ہیں ‘‘ کے علاوہ بقیہ روایت صحیح ہے۔ (الارواء: ۱۸۴۱)۔
[2] فتح القدیر: ۱/۵۶۸۔
[3] حوالہ ایضا۔
[4] تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۰۲۔
[5] تیسیر القرآن: ۱/۳۸۳-۳۸۴۔