کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 232
صورت میں نکاح کی اجازت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بھی آخر عورت ہی کی جنس سے ہے۔[1]
نیز یہاں غیر کی لونڈی مراد ہے جبکہ انسان کی اپنی ذاتی لونڈی کے سلسلے میں اس بات پر اجماع واقع ہو چکا ہے کہ اس کے لیے اس سے نکاح کی گنجائش نہیں جبکہ وہ اس کی زیر ملکیت ہو کیونکہ اس سے بیوی اور لونڈی کے حقوق باہم متعارض ہو جاتے ہیں اور ان میں اختلاف برپا ہو جاتا ہے۔
نیز ’’فَتَیٰت‘‘ ’’فتاۃ‘‘ کی جمع ہے اور عرب غلام کو ’’فتی‘‘ اور لونڈی کو ’’فتاۃ‘‘ کہا کرتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں آتا ہے ((لَا یَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ وَ اَمَتِیْ وَ لٰکِنْ لِّیَقُلْ فَتَایَ وَ فَتَاتِیْ)) ’’تم میں سے کوئی شخص میرا عبد اور میری امۃ کا لفظ نہ بولے بلکہ کہے میرا فتی (جوان) اور میری فتاۃ (لونڈی)۔‘‘ [2]
﴿وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ﴾: اس میں لونڈی سے نکاح کرنے والے کو تسلی دی جا رہی ہے جب آدمی مذکورہ دونوں شرطوں کو جمع کر لے، یعنی تم سب آدم کی اولاد ہو اللہ کے ہاں تم میں سب سے بڑھ کر معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہے۔ چنانچہ تم ضرورت کے وقت لونڈیوں سے شادی کرنے سے اعراض نہ کرو۔ بسا اوقات بعض لونڈیوں کا ایمان بعض آزاد عورتوں کے ایمان سے افضل ہوتا ہے نیز یہ جملہ معترضہ ہے۔
﴿بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ﴾: یہ مبتدا و خبر ہے اور اس کا معنی ہے کہ بلاشبہ وہ سارے نسبوں میں ملے ہوئے ہو کیونکہ وہ سب آدم کی اولاد ہیں یا پھر دین میں متصل ہیں کیونکہ وہ سارے ایک ہی ملت کے پیروکار ہیں ان کی کتاب ایک اور ان کا نبی بھی ایک ہے۔ نیز اس سے عرب کے دلوں کو مطمئن کرنا مقصود ہے کیونکہ وہ لونڈیوں کی اولاد کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے اور ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے تھے۔[3]
لونڈیوں سے نکاح ان کے مالکوں کی اجازت سے کرو
لونڈی کا ولی اس کا آقا ہے اس کی اجازت کے بغیر اس سے نکاح منعقد نہیں ہو سکتا۔ اس طرح غلام بھی اپنے آقا کی رضامندی حاصل کیے بغیر اپنا نکاح نہیں کر سکتا۔ حدیث میں ہے جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کر لے وہ زانی ہے۔[4]
لیکن اگر کسی لونڈی کی مالک کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کر اسکتا ہے کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے وہ عورتیں
[1] تیسیر القرآن: ۱/۳۸۳۔
[2] فتح القدیر: ۱/۵۶۷۔
[3] فتح القدیر: ۱/۵۶۷۔
[4] سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب فی نکاح العبد بغیر اذن موالیہ: ۲۰۷۸۔ ترمذی: ۱۱۱۱۔ مسند احمد: ۳/۳۰۱۔ حاکم و ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔