کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 231
﴿ وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ’’اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے تو ان میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں ، تمھاری مومن لونڈیوں سے (نکاح کرلے) اور اللہ تمھارے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے، تمھارا بعض بعض سے ہے۔تو ان سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور انھیں ان کے مہر اچھے طریقے سے دو، جب کہ وہ نکاح میں لائی گئی ہوں ، بدکاری کرنے والی نہ ہوں اور نہ چھپے یار بنانے والی، پھر جب وہ نکاح میں لائی جاچکیں تو اگر کسی بے حیائی کا ارتکاب کریں توان پر اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں پر ہے۔ یہ اس کے لیے ہے جو تم میں سے گناہ میں پڑنے سے ڈرے اور یہ کہ تم صبر کرو تو تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ تفسير:… ’’طول‘‘ نام ہے دولت کی وسعت کا۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور اہل علم نے یہی بات کی ہے۔[1] لونڈی سے نکاح کب جائز ہے؟ آزاد عورت کا لونڈی کی بنسبت حق مہر بھی زیادہ ہوتا ہے اور نان و نفقہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ اجازت صرف اس شخص کے لیے ہے جو ایک آزاد عورت سے نکاح کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو۔ دوسرا اسے یہ خطرہ ہو کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جائے گا کیونکہ آزاد عورت سے نکاح بہرحال بہتر ہے اس لیے کہ اس سے جو اولاد پیدا ہو گی اس کے ماتھے پر غلامی کا داغ نہ ہو گا اور مجبوری کی
[1] فتح القدیر: ۱/۵۶۷۔