کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 230
خیبر، فتح مکہ اور اوطاس اور جنگ تبوک ہیں ۔ ان مواقع پر ابتدائً نکاح متعہ کی اجازت دی جاتی تھی اور جنگ کے اختتام پر اس کی حرمت کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ گویا یہ ایک اضطراری رخصت تھی اور صرف ان مجاہدین کو دی جاتی تھی جو محاذ جنگ پر موجود ہوتے تھے اور اتنے عرصہ کے لیے ہی ہوتی تھی اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر، احد اور جنگ خندق کے مواقع پر ایسی اجازت نہیں دی گئی اور جن حالات میں یہ جازت دی جاتی تھی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے:
عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس عورتیں نہ تھیں اور ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور اس بات کی اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے ایک معین مدت تک عورت سے نکاح کریں ۔[1]
ابن ابی عمرو کہتے ہیں کہ متعہ پہلے اسلام میں ایک اضطراری رخصت تھی جیسے مجبور و مضطر شخص کو مردار، خون اورخنزیر کے گوشت کی رخصت ہے۔ پھر اللہ نے دین کو محکم کر دیا اور نکاح متعہ سے منع کر دیا گیا۔[2]
ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مرد اور عورت متعہ کی مدت مقرر نہ کریں تو تین دن رات مل کر رہیں پھر اگر چاہیں تو مدت بڑھا لیں اور چاہیں تو جدا ہو جائیں ۔[3]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح متعہ کی صورت ایسی نہ تھی جیسے آج کل قحبہ خانوں میں ہوا کرتی ہے کہ ایک بار کی مجامعت کی اجرت طے کر لی جاتی ہے بلکہ اس کی کم از کم مدت تین دن ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے یہ تین دن کی مدت بھی صرف صحابہ کرام کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ بعد میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق اسے منسوخ کر دیا گیا۔[4]
فرمان باری تعالیٰ: ﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ﴾ یعنی حق مہر میں زیادتی کر لو یا کمی، چنانچہ یہ باہم رضامندی کے بعد جائز ہے۔یہ مطلب اس بندے کے ہاں ہے جو اس آیت کو نکاح شرعی کے بارے مانتا ہے۔ بہرحال جمہور جو اس کے متعہ کے بارے ہونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس کا معنی متعہ کی مدت کی زیادتی یا کمی ہمیں باہم رضامندی ہے۔ یا اس سے فائدہ اٹھانے کے مقابل جو اسے معاوضہ دینا ہے اسے بڑھانا ہو یا کم کرنا ہو جتنا باہم رضامندی سے طے ہو جائے۔[5]
[1] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ۔
[2] حوالہ ایضا۔
[3] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب نہی رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم عن نکاح المتعۃ اخیرا۔
[4] تیسیر القرآن: ۱/۳۸۰-۳۸۱۔
[5] فتح القدیر: ۱/۵۶۷۔