کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 227
دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت سے ہی تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔ ۲۔ جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائے اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس سے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔ ۳۔ جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں ۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔ ۴۔ جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک میں وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں ۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ خودبخود آزاد ہو جائے گی۔ ۵۔ جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔ ۶۔ جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی۔ لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشاء یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں ۔ بلکہ درحقیقت اس معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔ ۷۔ ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں ۔ ۸۔ حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔