کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 226
’’محصنات‘‘ سے یہاں خاوندوں والیاں مراد ہیں ۔ ’’إحصان‘‘ قرآن میں کئی ایک معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے، جبکہ دوسرے سے مراد آزاد عورت ہے اسی سے متعلق فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ﴾ (النساء: ۲۵)
’’اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے۔‘‘
﴿وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (المائدۃ: ۵)
’’اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی (تم پر حلال کی گئی ہیں )۔‘‘
تیسرا اس سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں اور اسی سے متعلق فرمان تعالیٰ ہے: ﴿مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ﴾ ’’جب کہ وہ پاک دامنہ ہوں ، بدکاری کرنے والی نہ ہوں ۔‘‘ چوتھا معنی ہے: ’’مسلمہ ہو‘‘ اور اسی سے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿فَاِذَآ اُحْصِنَّ﴾ ’’سو جب وہ مان جائیں ۔‘‘[1]
شان نزول
یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں ۔ لیکن اگر کفار کی جو عورتیں میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں ۔ مسند احمد میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت سوال کیا، تب یہ آیت اتری، ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا۔[2]
لونڈیوں سے تمتع کی شرائط
لونڈیوں سے تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہنوں میں ہیں ۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:
۱۔ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی، حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو
[1] فتح القدیر: ۱/۵۶۴۔
[2] مسند احمد: ۳/۷۲۔ ابو یعلی: ۱۱۴۸۔ صحیح ہے۔ صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب جواز وطیء المسبیۃ بعد الاستبراء، حدیث: ۱۴۵۶۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۹۸)۔