کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 225
﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ’’اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں ) مگر وہ (لونڈیاں ) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں ، یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے اموال کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مقرر کر لینے کے بعد آپس میں راضی ہو جاؤ، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ حسن، سفیان ثوری، احمد و اسحاق رحمہم اللہ اور اصحاب الرأی سے بیان کیا جاتا ہے۔ نیز مالک رحمہ اللہ سے بھی یہ موقف بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ ان سے جو صحیح ملتا ہے وہ جمہور کے قول کے مترادف ہی ہے۔ جمہور نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے دلیل پکڑی ہے ﴿وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ﴾ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ﴾ جبکہ جس کے ساتھ زنا والا تعلق قائم کیا گیا ہو اس پر یہ بات صادق نہیں آتی کہ وہ ان کی عورتوں سے ہے اور نہ ہی وہ ان کے بیٹوں کی بیویاں ہیں ۔[1] اَلْمُحْصَنٰتُ کا لغوی معنی تفسیر:… ’’تَحَصُّن‘‘ کا اصل معنی روکنا ہے۔ اسی سے فرمان تعالیٰ ہے: ﴿لِتُحْصِنَکُمْ مِنْ بَأْسِکُمْ﴾ یعنی تاکہ تمہیں منع کر دے۔ اسی سے حاء کے کسرے کے ساتھ گھوڑے کے لیے بولا جانے والا لفظ ’’حصان‘‘ ہے کیونکہ وہ اپنے مالک کو ہلاکت سے بچاتا ہے۔ جبکہ حاء کے فتح سے ہو تو وہ پاک دامن عورت پر بولا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو روک کر رکھتی ہے۔
[1] فتح القدیر: ۱/۵۶۲۔