کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 223
جو پہلی تھی۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین، ائمہ، اور سلف و خلف کے علمائے کرام رحمہم اللہ کا اجماع ہے کہ دو بہنوں میں سے ایک کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا۔ حضرت فیروز فرماتے ہیں :’’ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو۔‘‘[1]
کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کر سکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بوجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لا سکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بہن بیٹی وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ماتحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں ۔ نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال ہے نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال۔ ٹھیک اسی طرح یہ حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے کا اور ساس اور دوسرے خاوند سے عورت کی جو لڑکی ہو اس کا ہے۔ خود ان جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام ہے۔[2]
دو سگی عورتوں کو جمع کرنے کا قاعدہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ اس معاملے میں یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی دو عورتوں کو جمع کرنا بہرحال حرام ہے جن میں سے کوئی ایک اگر مرد ہوتی تو اس کا نکاح دوسری سے حرام ہوتا۔[3]
چند وضاحت طلب مسائل
۱۔ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیٹی
جمہور علمائے کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی ہو وہ بھی اس زانی پر
[1] ابو داود، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم و عندہ نساء، حدیث: ۲۲۴۳۔ ترمذی: ۱۱۲۹۔ مسند احمد: ۴/۲۳۲۔ حسن ہے۔ الارواء: ۶/۳۳۴۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۹۶)۔
[2] حوالہ ایضا: ۱/۶۹۷۔
[3] تفہیم القرآن: ۱/۳۳۹۔