کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 216
امور خانہ داری کے لیے شوہر سے کسی ملازم یا ملازمہ کا مطالبہ کر دے اور اس کا جینا حرام کر دے۔[1]
اگر وہ صبر سے کام لے اورعورت کے تمام امکانات بروئے کار آنے کا موقع دے تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے۔[2]
بہت ممکن ہے کہ نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے۔[3]
طلاق دیتے وقت عورت سے مال ہتھیانے کی کوشش
یہاں دینے سے مراد صرف حق مہر نہیں اس کے علاوہ بھی جو کچھ تم اپنی بیویوں کو دے چکے ہو وہ ہرگز واپس نہ لینا چاہیے۔ بیوی کا تو خیر حق بھی ہوتا ہے انسان اگر کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے تو پھر اسے بھی وہ واپس نہیں لینی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے صدقہ (اور دوسری روایت کے مطابق اپنے ہبہ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔‘‘[4]
پختہ عہد سے مراد نکاح ہے
پختہ عہد سے مراد نکاح ہے کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبوط پیمانِ وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسا کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالے کرتی ہے، اب اگر مرد اپنی خواہش سے اس کو توڑتا ہے تو اسے وہ معاوضہ واپس لینے کا حق نہیں ہے جو اس نے معاہدہ کرتے وقت پیش کیا تھا۔[5]
اگر تم انہیں طلاق دیتے ہو تو طلاق دیتے وقت انہیں مزید کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ چہ جائیکہ تم پہلے دئیے ہوئے میں سے بھی کچھ لینے کی کوشش کرو۔[6]
سوتیلی ماؤں سے نکاح
اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے خواہ ملکیت میں لا کر خواہ شبہ سے وہ عورت بیٹے پر حرام ہے ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے امام احمد رحمہ اللہ تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے پر حرام بتاتے ہیں ۔[7]
[1] تیسیر القرآن: ۱/۳۷۵۔
[2] تفہیم القرآن: ۱/۳۳۴۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۸۷۔
[4] صحیح بخاری، کتاب الہبۃ، باب ہبۃ الرجل (امرأتہ و المرأۃ لزوجہا)۔ (تیسیر القرآن: ۱/۳۷۶)۔
[5] تفہیم القرآن: ۱/۳۳۵۔
[6] تیسیر القرآن: ۱/۳۷۶۔
[7] تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۹۰۔