کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 213
تم نے واقعتا یہ سنا ہے؟ اس نے کہا: ہاں میں نے خود سنا ہے۔ کہا میں نے سنا ہے ایک پہر پہلے توبہ نصیب ہو جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہے چوتھے نے کہا: کیا تم نے یہ سنا ہے؟ اس نے کہا: ہاں ۔ چوتھے نے کہا: میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لیے کھلے رہتے ہیں ۔[1] عورت پر ظلم کا خاتمہ تفسیر:… صحیح بخاری میں ہے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قبل اسلام جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کے وارث اس کے پورے حق دار سمجھے جاتے۔ اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر وہ چاہتے تو دوسرے کسی کے نکاح میں دے دیتے۔ اگر چاہتے تو نکاح ہی نہ کرنے دیتے، میکے والوں سے زیادہ اس عورت کے حق دار سسرال والے ہی گنے جاتے تھے۔ جاہلیت کی اس رسم کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی۔[2] دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کو مجبور کرتے کہ وہ مہر کے حق سے دستبردار ہو جائے یا یونہی بے نکاحی بیٹھی رہے۔[3] زہری و ابو مجلز رحمہما اللہ کہتے ہیں : ان کی عادت تھی جب ان میں کوئی آدمی مر جاتا اور اس کی بیوی بھی ہوتی تو اس کا سوتیلا بیٹا یا کوئی قریبی رشتہ دار عورت پر اپنا کپڑا ڈال دیتا، چنانچہ وہ اس کی ذات کا اس سے اور اس کے عزیزوں سے بڑھ کر اس کا حق دار ٹھہرتا۔ اب اگر وہ چاہتا تو اس سے بغیر حق مہر کے الا کہ جو مرنے والے نے اسے حق مہر دیا تھا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اس سے بیاہ رچا لیتا اور اگر چاہتا تو کسی اور سے بیاہ دیتا اور اس کا حق مہر ضبط کر لیتا اسے کچھ نہ دیتا اور اگر چاہتا تو اسے روک لیتا تاکہ اسے جو میت کی وراثت حاصل ہوئی ہے اس سے اسے فدیہ دے دے یا وہ عورت مر جائے نتیجتاً یہ اس کا وارث بن جائے۔[4] بیوی کو تنگ کر کے حق مہر نکلوانا کس صورت میں جائز ہے اور کب ناجائز؟ ارشاد ہے: عورت کی بود و باش میں انہیں تنگ کر کے تکلیف دے دے کر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنا سارا مہر چھوڑ دیں یا اس میں سے کچھ چھوڑ دیں یا اپنے کسی اور واجبی حق وغیرہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائیں کیونکہ انہیں ستایا اور مجبور کیا جا رہا ہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ عورت ناپسند
[1] مسند احمد: ۳/۴۲۵، ۵/۳۶۲۔ المجمع: ۱۰/۱۹۶، حدیث: ۱۷۵۰۵۔ اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۸۳)۔ [2] صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرہا، حدیث: ۲۰۷۹۔ ابو داود، کتاب النکاح، باب فی قول اللہ تعالیٰ لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرہا، حدیث: ۲۰۸۹۔ [3] ابو داود، حوالہ ایضا: ۲۰۹۰۔ حسن ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۸۵)۔ [4] فتح القدیر: ۱/۵۵۵۔