کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 211
معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اس سے منہ پھیر گیا تھا اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔
خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرنو اس کی طرف منعطف ہو گئی۔[1]
توبہ مومنوں پر فرض ہے
امت اس بات پر متفق ہے کہ توبہ اہل ایمان پر فرض ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿تُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (النور: ۳۱)
’’تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو، اے مومنو!‘‘
معتزلہ کے برعکس جمہور کا مسلک ہے کہ ایک گناہ کو چھوڑ کر دوسرے کی توبہ کرنا یہ درست ہے۔ تمام معصیت کار جاہل ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے قتادہ سے حکایت بیان کی ہے کہ ان کا کہنا ہے: اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر معصیت جو جان بوجھ کر کی گئی ہو یا نادانی سے وہ جہالت سے ہی کی گئی ہوتی ہے۔[2]
کس کی توبہ قبول ہوتی ہے اور کس کی نہیں ؟
ان دو آیات میں چار قسم کے لوگوں کی توبہ کا ذکر ہوا ہے ایک وہ جس نے نادانستہ گناہ کیا مگر جب اسے معلوم ہو گیا تو اس نے فوراً توبہ کر لی۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا: ﴿اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ﴾ اور عَلٰی کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ پر واجب ہے یا وہ ضرور توبہ قبول کرتا ہے اور یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اپنے لیے واجب کر لیا ورنہ وہ تو مختار مطلق ہے۔
دوسری قسم عدم شرط سے پیدا ہوتی ہے، یعنی وہ لوگ جو گناہ نادانستہ طور پر ہی کرتے ہیں مگر معلوم ہو جانے پر توبہ میں جلدی نہیں کرتے بلکہ تاخیر کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا اللہ نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ چاہے تو قبول کر لے اور چاہے تو نہ کرے۔
تیسری قسم اس مسلمان کی ہے جسے عمر بھر تو توبہ کا خیال نہ آیا اور اگر خیال آیا بھی تو موت کے وقت ایسے شخص کے متعلق واضح طور پر فرما دیا کہ اس کی توبہ قبول نہ ہو گی۔
چوتھی قسم جو توبہ کیے بغیر کفر ہی حالت میں مر گیا اس کی بھی موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہو سکتی اور اس
[1] تفہیم القرآن: ۱/۳۳۳۔
[2] فتح القدیر: ۱/۵۵۲۔